Tuesday, 27 March 2012

چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جاییں ہم دونوں

ایک دفعہ تاتاریوں کے سردار چنگیز خان سے کسی نے پوچھا "اے خان تاتارتو نے کبھی کسی  پہ رحم کیا ہے ؟
ہاں ! چنگیز خان نے جواب دیا . "ایک دن میں گھوڑے پر سوار نیزہ اٹھاے ایک   ندی کے قریب سے گزر رہا تھا-  میں نے دیکھا کہ ایک عورت ندی کے کنارے کھڑی روتے ہوے مدد کے لئے پکار رہی ہے. قریب ہی ندی میں اوس کا بچہ ڈبکیاں کھا رہا تھا. مجھے اس عورت پر ترس آیا - بچہ کنارے سے دور نہیں تھا- میں گھوڑے سے اتر کر بچے کے قریب پوہنچا، پھر ہاتھ بڑھا کر نیزہ بچے کے پیٹ میں گھونپا اور اسے نیزے کی نوک پر اٹھا کر ماں کے حوالے کر دیا.

پاکستان کا سلوک بھی اپنے صوبوں کے ساتھ ایسا ہی رہا ہے. بلخصوص بلوچستان میں محرومیت اور حق خود ارادیت کی آواز بلند کرنے والوں کے ساتھ بھی ہمیشہ یہی رویہ رکھا گیا. اصولی طور پر تو بحیثیت  ملک، اس ملک کے حکمرانوں، بیوکریسی اور اسٹیبلشمنٹ  کو اگر پاکستان کی سلامتی کا حصول عزیز ہوتا تو یہاں کبھی محرومیاں نہ ہوتیں بلکہ خوشحالی ہوتی اور کہیں سے کوئی صدا احتجاج بلند نہ ہوتی. مگر شومی قسمت کہ جہاں پاکستان کو کبھی کوئی دیانتدار اور ملک سے محبت کرنے والا حکمران نہیں ملا تو وہیں دوسری طرف  آمریت بھی پاکستانی سیاست میں لازم و ملزوم ٹھہری . ان حالت میں جہاں آج لاقانونیت ، کرپشن ، مہنگائی، بھتہ مافیا ،ٹارگٹ کلنگ، ڈرون اٹیک اور جھوٹی تسلیوں کا راج ہے وہیں بلوچستان سے آزدی کے نعروں کی گونج پوری دنیا میں سنایی دے رہی ہے. آج پوری دنیا میں  جہاں بلوچ موجود ہے وہاں آزاد بلوچستان کا نعرہ بھی موجود ہے.

     کانگریس مین دانا روہرابیکر کے ریزولوشن  کے بعد تو گویا پاکستان کی پوری عوام گہری نیند سے بیدار ہوئی .میڈیا بھی کچھ عرصے کے لئے جاگا، بولا اور پھر خاموش ہو گیا. حکمرانوں نے بھی روایتی بیان بازی کا ہی گر استعمال کیا، ملٹری  اور اسٹبلشمنٹ بھیگی بلی بنی رہی اور عدلیہ کو سوموٹو نوٹس کے لئے ٹیچر کی ٹوٹتی ٹانگ، لڑکیوں کی زبردستی شادی اور وحیدہ شاہ کا تھپڑ تو دکھایی دیتا ہے مگر بلوچستان سے ملنے والی مسخ شدہ لاشیں ، مسنگ پرسن کے اہل و عیال کی آہ و فریاد سنائی نہیں دیتی. کسی نے   صحیح کہا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے مگر پاکستان کا قانون اندھا ہونے کے ساتھ ساتھ بہرا بھی ہے ور اپاہج بھی. 
لیکن اس تمام صورت  حال میں افسوسناک رویہ عوام کا رہا. ان کی ستم ظریفی پر غصّہ کم اور ہنسی زیادہ آیی. ہماری قوم بھی "لائی لٹ" ہے - نصاب میں پڑھنے    والی پاکستان کی تاریخ سے  زیادہ انہیں کچھ معلوم نہیں. اور حقائق کو نہ جاننا ہماری قوم کی گھٹی میں بدرجہ اتم موجود ہے. ہماری عوام نے پاکستانی ہونے کا ثبوت کچھ یوں دیا کے بلوچستان ک مسلے کو سمجھنے کی بجاے بلوچوں کی آزادی کی تحریک کو گالیوں سے نوازا. بلوچوں  کو غدار کہا، امریکا کا پٹھو کہا، سازشی کہا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کے بلوچ قوم جو پہلے صرف اسٹبلشمنٹ کے خلاف تھی  اب  اس ملک کے لوگوں سے بھی دور ہوتی جا رہی ہے.

پاکستان کی عوام کو تو یہ بھی معلوم نہیں کے 1947  میں جب پاکستان بنا تھا تو اس وقت بلوچستان پاکستان کا حصّہ نہیں تھا. بلکہ 15 اگست 1947 کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے  نقشے پر اجاگر تھا. 27 مارچ1948  پاکستان نے طاقت کے زور پر بلوچستان پر قبضہ کیا- بلوچوں کے خون کی ندیاں بہائیں اور زبردستی اسے پاکستان کا حصّہ بنایا . پاکستان کے بلوچستان پر جبری تسلط کا سلسلہ آج بھی جاری ہے. 1948 سے لے کر آج تک بلوچ قوم آزادی  حق کے لئے سر گرم عمل ہے. جبکہ حکومت پاکستان نے بھی بلوچستان میں خون ریزی کو رکنے نہیں دیا. 1958-1959  اور 1963-1969 میں بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی گیی1971 میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا. 1973  میں متفقہ طور پر آیین کی منظوری اور اس میں صوبوں کو خودمختاری دینے کی شق کے بعد کہیں یہ  امید ضرور پیدا ہوئی کہ شاید اب اس مسلے کا حل نکل آے. اصولی طور حکومت کو بھی آیین کی منظوری کے بعد بلوچوں کی محرومیت ختم کرنے  کا موقع ملا مگر صد افسوس کہ 1973-1977 کے درمیان ہزاروں بلوچوں کا قتل عام کیا گیا. ان کی محرومیوں کو اور ہوا دی گیی. پرویز مشرف کے دور حکومت میں 2004 سے بلوچستان کے عوام کے ساتھ جس طرح آمرانہ رویہ اختیار کیا گیا اور جس طرح انسانی حقوق کی پامالی اور خلاف ورزی کی گیی اس کے ثمرات نہ جانے کب تک ہم سب کو بھگتنے پڑیں گے، اس دوران نہ صرف یہ کے بلوچ کو پھر بیدردی سے مارا گیا گیا بلکہ  عورتوں اور بچوں کی لاشیں بھی گرایی گییں. اور بلوچ عورتوں کو اغواہ کر کے 'پاک فوج کے ٹارچر سیلوں میں ان کی عزت کو پامال کیا گیا. ہر بلوچ خاندان کو ان کے پیاروں کی مسخ شدہ لاشوں کا تحفہ بھی دیا گیا. شہید نواب اکبر بگٹی کے تابوت کو تالا لگا کر دفن کر دیا گیا. اور بلوچوں کو واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستانی حکمران، فوج اور خفیہ ایجنسیاں بلوچستان کو کبھی آزاد نہیں ہونے دیں گیں. اور بلوچستان پر اپنے جابرانہ تسلط کو قائم رکھنے کے لیے اسی کے باسیوں کے خون سے رنگتی رہیں گی. آزادی اور حق کا نعرہ بلند کرنے والے بلوچوں کی  آواز کو ظلم، بربریت اور گولیوں ک بوچھاڑ میں دفن کرتے رہیں گے.

پاکستانی عوام کشمیر پر بھارت کے اور فلسطین پر اسرئیل کے غاصبانہ تسلط پر تو سراپا احتجاج نظر آتے ہیں تو پھر بلوچستان پر پاکستان کا جبری تسلط کیوں مسترد کرتے ہیں. فلسطین، کشمیر، عراق اور افغانستان میں بہنے والا خون دکھائی دیتا ہے لیکن بلوچستان میں بہنے والا خون پانی کیوں لگتا ہے؟ 5 فروری کو  کشمیر سے یکجہتی کا دن یاد ہے لیکن 27 مارچ کو بلوچستان کی عوام کے ساتھ کیوں نہیں؟  کیا یہ ہمارا دوہرا رویہ نہیں؟ مٹھائی سے پیار اور حلوائی سے بیر.... 
رشتوں کا ہونا بہت بڑی بات نہیں، بڑی بات ان رشتوں کو نبھانا ہے. اور جو رشتے زبردستی قایم کے جاییں وہ  کبھی نہیں پنپتے. ان کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہوتا ہے. بلخصوص جب رشتوں کو قائم رکھنے کے لئے کوئی بھی مثبت پیش رفت کرنے کو تیّار نہ ہو. پاکستان کا بلوچستان سے زبردستی کا رشتہ بھی بس ایسا ہی ہے 

بقول ساحر لدھیانوی
تعارف روگ بن جائے تو اس کو بھولنا بہتر
تعلق روگ بن جائے تو اس کو توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے ایک خوبصورت موڑ دے کے چھوڑنا اچھا
چلو ایک بار پھر سے اجنبی بن جایئں ہم دونوں  

Saturday, 10 March 2012

Baloch & Balochistan







Sir Mir Muhammad Khan
Ruling Cheif Kalat
1984
Ameer Dost Muhammad Khan Baranzai Baloch -  c. 1928
Mir Dost Muhammad Khan Baranzai,
Western Baluchistan Ruler till
1928 invasion


Marri Bugti Tribesmen 1900
Sir Mir Mohammad Khan- Ruling cheif of Kalat (1864)


Sherro Marri


Shero Marri A.K.A General Sheroff A.K.A Sher Muhammad Marri




Nawab Akbar Bugti




Mir Nabi Bux Baloch
Nawab Nouroz Khan & Mir Ghous Bax Bazinjo


Prince Abdul Karim

Baloch Haji Lashkari Raisani 3

Nawab Kheir Bux Marri
Balach Marri
Great Freedom Fighter
Dr. Allah Nazir