Tuesday, 21 February 2012

A PERSONAL FEELING

پچھلے دنوں میں نے بلوچستان کے ایک نہایت قابل ے ذکر اور جانے پہچانے پولیٹیکل فگر کی .... جنہیں ہمارے  خفیہ ادارے لے گئے تھے، ان کی مسخ شدہ لاش کی تصویر اپنی فیس بک  پی لگائی. یوں تو میری فیس  بک  کی ہر پوسٹ پے چند ہی منٹوں میں  کافی کوممنٹس آ جاتے ہیں لیکن اس ایک تصویر پے صرف  ا ور صرف خاموشی تھی.اور  جنہوں نے ہمّت کر کے اس تصویر پے کوممنٹ کے وہ ، وہ  لوگ تھے جن کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا. اپنے تجسس سے مجبور ہو کر میں نے اپنے چند دوستوں سے کوممنٹ نہ کرنے وجہ پوچھی اور کچھ یوں جوابات موصول هوئے ے :


  • بلوچستان سے ہمیں کیا، وہ جانیں اور ان کہ  مسایل 
  •   ہماری کیا اپنی پریشانیاں کم ہیں 
  • مجھے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں 
  • دیکھو تم فیس بک پر ایسی چیزیں نہ لگایا کرو کہیں یہ  تمہارے پیچھے نہ پڑ جاییں 
  • بلوچوں اور آرمی  کے "پھدڈون میں ہمیں پڑنے کی کیا ضرورت 
  • پاکستان توڑنے والوں سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں 
ان جوابات سے دو باتیں بہت واضح ہیں.
  1. ہماری قوم کی کم علمی اور کم مائیگی
  2. پاکستانیوں  کا  آرمی اور خفیہ ایجنسیوں سے ڈر اور خوف 

آج 65 سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے لوگ یہ نہیں جانتے کے بلوچستان کا اصل مسلہ کیا ہے؟ اور وہ لوگ جو جانتے ہیں ، خفیہ ایجنسیوں کی خفیہ کاروائیوں کے ڈر سے منہ بندہ رکھنے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں. لیکن بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی. آج پاکستان میں مہنگائی ، چور بازاری، رشوت خوری کو ختم کرنا مشکل ہے لیکن کسی کی زندگی لے لینا بہت ہی آسان . آج مسخ شدہ لاشیں ملنا ایک عام سی بات ہو گیی ہے. اور اس روز مرہ کے معمول نے جہاں بلوچوں کو پاکستان سے بد ظن کر دیاہے ، وہیں عوام کو بے حس  بھی کر دیا ہے اور اتنا بے حس  کر دیا ہے کے ان مسخ شدہ لاشوں کو دیکھ کر بھی دل میں  ہمدردی محسوس نہیں ہوتی .
ابھی بھی میرے سامنے فیس بک  پر ہمارے پاکستانی فیشن شو، ڈانس پارٹی، شعر و شاعری اور کرکٹ میچ پر تبصرہ کرنے میں مصروف ہیں. ان مے ہر کوئی یہ تو جانتا ہے کہ اس نے اس ویک اینڈ کہاں جانا ہے، کس سینما میں کونسی فلم لگی ہے، کھانا کہاں کھانا ہے لیکن  بلوچستان مے گرنے والی لاشوں کا کچھ پتا نہیں. ان لوگوں کے دکھ اور درد کا کوئی احساس نہیں جو اپنے پیاروں کی لاشوں پر نوحہ کناں ہیں. جن کے پیارے نہ جانے کب سے گھر نہیں لوٹے. ہر روز ملنے والی لاشوں کے پاس دوڑے دوڑے جاتے ہیں کے کہیں یہ لخت ے جگر ان کا خون تو نہیں. شدید سردی میں پارلیمنٹ ہاوس  کے باہر اپنے پیاروں  کی تصویریں لئے بیٹھے ہیں. وہ لوگ جن کے لخت ے جگر کو اچانک غایب کر دیا جائے، دِن رات انتظار کی بھٹی میں جلایا جائے، روز زندہ کیا جائے، روز مارا جائے، یہ جانتے ھوے کہ کون اٹھا کر لے گیا ہے پھر بھی دکھوں کا مداوا نہ کیا جائے اور ایک دِن ان کی مسخ شدہ لاش کو کہیں پھینک دیا جائے  . ایسے زخم خوردہ لوگوں سے وفا کی امید، پاکستان سے محبّت کی امید، اس ملک سے وفاداری کی امید کرنا سراسر بیوقوفی ہے. 
آگ کو پانی سے ٹھنڈا کیا جاتا ہے ایندھن سے نہیں. اور جب آگ کو بھڑکایا جاتا ہے تو پھر یہ بلا تفریق سب کچھ جلا کر رکھ کر دیتی ہے.
فیصلہ ہمیں کرنا ہے ....

 پانی یا ایندھن ؟

No comments:

Post a Comment